ادب کو علم کا زیور کہا جاتا ہے اور علم انسانی ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے۔ تہذیبوں کو جنم دیتا ہے معاشروں کو پروان چڑھاتا ہے۔اور ایسا کرنے میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔جب تک کوئ معاشرہ کتاب سے منسلک رہتا ہے وہاں ترقی کا سفر جاری رہتا ہے۔

لیکن بد قسمتی سے پاکستانی معاشرہ گذشتہ دو دہائیوں سے کتاب بینی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کار اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سب سے پہلے ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج انسانی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ، کمرشلائزیشن، تیز رفتار طرز زندگی اور معیاری ادب کا تخلیق نہ ہونا بھی شامل ہیں۔

یہ درست ہے کہ انٹر نیٹ نے تیز ترین معلومات فراہم کرنے کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی ذخائر جو پہلے کبھی لائبریوں میں ہوا کرتے تھے اب سرچ انجنز کے ذریعے ان تک رسائی بہت آسانی سے ہو جاتی ہے۔

لیکن معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ اس سے متفق نظر نہیں آتے ان کے مطابق یورپ میں کمپیوٹر ہم سے پچاس سال پہلے متعارف ہو گیا تھا لیکن وہاں آج بھی کتاب پڑھنے کا رحجان اسی طرح موجود ہے۔

ان کے مطابق اگر حکومت کتاب کا بزنس کرنے والوں کو کاروبار کے لیے سستی زمین اور سبسڈی دینے جیسی مراعات کا اعلان کرے تو صورتِ حال بہت بدل سکتی ہے۔

کتاب سے دور ہونے کی ایک وجہ سکول اور کالج کی سطح پر طالب علموں کو نصابی کتب کے علاوہ ادب اور شخصیت سازی میں مدد دینے والی کتابوں کے مطالعے پر مائل نہ کرنا بھی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ کی رائے میں ملک میں فوڈ سٹریٹس کے ساتھ ساتھ اگر بک سٹریٹس بھی بنائی جائیں تو کتاب سے قاری کا رشتہ ایک بار پھر استوار کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ آج بھی اچھی کتابوں کے متلاشی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اتوار کے روز انار کلی کے ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے میں پرانی کتابوں کا جو بازار لگتا ہے اس میں خریداروں کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔

اردو زبان کے معروف نقاد اور ادیب ڈاکٹر جمیل جالبی کی راۓ اس بارے میں یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھنے کا رواج سننے اور دیکھنے کے مقابلے میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہو گئی ہو۔ ان کے خیال میں اردو ادب اب بھی پڑھا جا رہا ہے لیکن وہ عام آدمی کے ہاتھ سے اس لیۓ نکل گیا ہے کہ کمپیوٹر کے اس نئے دور میں اس کی دلچسپیاں بدل گئیں ہیں۔

کتاب اور ادب سے دوری کا ایک سبب ڈاکٹر جمیل جالبی کے نزدیک یہ بھی ہے کہ شائد ادب اب بے مقصدیت کا شکار ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی راۓ میں کتاب معیاری ہو یا غیر معیاری ، دونوس صورتوں میں اس کی تشہیر بہت ضروری ہے۔

نئے دور کے نئے تقاضے ہیں اور اسی لیے اب تشہیر کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ اور اب ہمارے شاعر اور ادیب کتاب کے ساتھ آڈیو سی ڈی بھی رکھنے لگے ہیں جس میں قارئین ان کی شاعری یا نثر کے نمونوں سے خود ان ہی کی آواز میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

ایک اور سبب یہ ہے کہ کتاب چھاپنے والے یعنی پبلشرز خود تو ٹھیک ٹھاک پیسہ بنا لیتے ہیں لیکن وہ کتاب قاری تک پہنچانے میں اپنا فرض پوری طرح انجام نہیں دیتے یعنی کتاب کو ملک بھر کے بک سٹالز تک پہنچانے کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کرتے۔

لاہور میں سانجھ پبلیکیشنز کے مالک امجد سلیم کا کہنا ہے کہ ہمارے پبلشرز کتاب کی مارکیٹنگ محض آٹھ نو بڑے شہروں تک محدود رکھتے ہیں اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز تک بھیجنا پسند نہیں کرتے۔

ادب کے تجزیہ کار کتابوں کے کم پڑھے جانے کی ایک اور وجہ ان کا مہنگا ہونا بتاتے ہیں جس کا سبب ان کے مطابق یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کاغذ پر ڈیوٹی ذیادہ لگائی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف بھارت میں ہر کتاب کا ایک سستا ایڈیشن بھی چھپتا ہے اور ہر طبقے کی کتاب تک رسائی بآسانی ہو سکتی ہے۔

لیکن اردو زبان کی ترویج کے حکومتی ادارے مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ افتخار عارف اس سے متفق نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ عالمی سطح پر کاغذ کے نرخ کتنے بڑھ چکے ہیں۔

اردو کے معروف ادیب مختار مسعود نے اپنی کتاب ’آوازِ دوست‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ بیسویں صدی کی گذشتہ چار دہائیاں کتاب پڑھنے اور کتاب لکھنے کا زمانہ تھیں اور اس دور میں بہت اچھی کتابیں لکھی گئیں اور نامور ادیب شاعر اور دانشور پیدا ہوئے۔ لیکن انیس سو پچاس کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی مائیں شائد تاجر اور سیاست دان ہی جنتیں رہیں۔

مختار مسعود کی یہ راۓ اپنی جگہ لیکن آج بھی اگر معاشرے میں کتاب پڑھنے کا کلچر رائج کیا جاۓ، اجاڑ لائبریریوں کو پھر سے آباد کیا جاۓ اور اچھا ادب تخلیق کیا جاۓ تو قاری اور کتاب کا رشتہ ایک بار پھر استوار کیا جا سکتا ہے۔