اس آپ بیتی میں روشنی بھی نظر آتی ہے اور اس روشنی کی تیز شعاعوں میں بہت سے راستوں کے منظر بھی کھلتے نظر آتے ہیں

’’سیاق و سباق‘‘ جمیل احمد عدیل کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ ڈاکٹر محمد امین ان کے بارے کہتے ہیں کہ وہ بہت اچھے افسانہ نگار ہیں اور ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کو تنقیدی صلاحیت سے ملاکر تنقیدی مضامین لکھے ہیں جو ان کی تخلیقی بصیرت اور تنقیدی شعورکو ظاہر کرتے ہیں۔

جمیل احمد عدیل نے خود نوشت سوانح عمری کو اپنے تنقیدی مضامین کا موضوع بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’خود نوشت سوانح عمری محض روزنامچہ نہیں ہوتی کہ واقعات کو ترتیب کے ساتھ لکھ دیا جائے۔ اس میں اندر کے سفر کا بیان ضروری ہے۔ اپنے ان احساسات کا اظہار ناگزیر ہے جن تک عام سوانح نگار یا مؤرخ کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ اپنے جذبوں کے وہ مخفی، تہہ در تہہ پہلو اور جہتیں جن سے انسان خود ہی آگاہ ہوتا ہے ان کا بیان لازمی ہے۔‘‘

احسان دانش کی خودنوشت داستان حیات ’’جہانِ دانش‘‘ کی مثال دیتے ہوئے عدیل لکھتے ہیں کہ ’’احسان دانش نے زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے لیکن اپنی خود نوشت میں کہیں بھی انھوں نے خود فریبی پر مشتمل ابہام سے خود کو پوتر اور مقدس ثابت کرنے کی جلی یا خفی سعی نہیں کی۔ انھیں سب یاد ہے کہ انھوں نے کس جرم کی کیا سزا پائی۔ انھوں نے ہر تکلیف اور رنج کے لمحے اور عسرت و مفلسی کی زیست میں اس خیال سے خود کو مطمئن کرلیا کہ اگر انھیں کچھ سہولتیں میسر نہیں تو وہ قیمت سے خریدی جاسکتی ہیں مگر ان کے اندر ایک ایسا جوہر موجود ہے جس کی کوئی قیمت نہیں کہ قدر والی اشیا کی کوئی قیمت ہوا ہی نہیں کرتی۔

وہ انمول گوہر تھا تخلیقی جوہر۔ اسی لیے انھوں نے روزگارکی چکی کی مشقت عمر بھر برداشت کرنے کے باوجود مشق سخن جاری رکھی۔‘‘جمیل احمد عدیل نے میرزا ادیب کی آپ بیتی ’’مٹی کا دیا‘‘ کو اسلوب کے اعتبار سے عصر حاضر کی آپ بیتیوں میں ’یادوں کی برأت، جہانِ دانش، شہاب نامہ، گرد راہ، کھوئے ہوؤں کی جستجو‘ سے زیادہ اہم قرار دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’’اس خودنوشت سوانح حیات کا اسلوب نہ تو اردو کی کسی آپ بیتی اور نہ کسی خاص مصنف کے طرز کی پیروی معلوم ہوتی ہے کہ اسلوب کے حوالے سے خود میرزا ادیب لیجنڈ کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ’’مٹی کا دیا‘‘ اسلوب کے اعتبار سے ادب کے اونچے سنگھاسن پر فائز ہے اور اس کا سبب یہی ہے کہ آپ بیتی کسی محقق نقاد، معلم، عالم، سائنس داں یا سیاستدان کسی کی بھی ہو، جب تک اس میں ادبیت موجود نہ ہو کامیاب نہیں کہلاسکتی۔

بہرصورت میرزا ادیب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اپنی ذات کے اندر کے سفر کو روشن لفظوں کے ساتھ اس طرح جگمگا دیا ہے کہ ہر حساس شخص اپنی ذات کے باطن کا عکس اس میں دیکھ سکتا ہے۔‘‘جمیل احمد عدیل نے قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح ’’شہاب نامہ‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس امر میں تو کلام نہیں کہ یہ خودنوشت علمی، ادبی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور حکومتی معاملات کے متعلق بڑی دلچسپ اور معلومات افزا کتاب ہے لیکن بعض مقامات پر صاحب کتاب نے اپنے آپ کو ناقابل تسخیر ہیرو کے رنگ میں پیش کیا ہے جو نہتا ہونے کے باوجود بہت سے طاقتور اور مقتدر افراد کو شکست دیتا ہے۔ اس کے ساتھ عدیل نے ان جادوئی اور طلسماتی تحیر انگیز واقعات کا بھی ذکر کیا ہے جو ’’شہاب نامہ‘‘ میں فراوانی سے درج ہیں۔ اس باب میں سب سے اہم اور قابل ذکر معاملہ ایک پراسرار غیبی ہستی ’’نائنٹی‘‘ کا ہے۔ یہ بزرگ ہستی شہاب صاحب کو پچیس برس تک نہایت شستہ انگریزی کے بلند پایہ اسلوب میں خطوط لکھتی رہی ہے۔

تقسیم ملک کے بعد اردو میں لکھی گئی آپ بیتیوں کے مطالعے کے بعد جمیل احمد عدیل کو شہرت بخاری کی خود نوشت سوانح عمری ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی تھکا ماندہ مسافر تنگ اور تاریک گلیوں سے نکل کر کسی خاموش مگر کشادہ سڑک پر اچانک آ نکلا ہو، جس کے دونوں اکناف سفیدے کے بلند و بالا شجر ایک ترتیب سے تاحد نظر لگے ہوئے ہوں اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ان کے پتوں سے گلے مل کر آئیں تو مشام جاں کو معطر کردیں۔‘‘ تاہم وہ لکھتے ہیں کہ شہرت بخاری کی یہ سرگزشت جوش کی ’’یادوں کی برأت‘‘ احسان دانش کی ’’جہانِ دانش‘‘ اور قدرت اللہ شہاب کی ’’شہاب نامہ‘‘ کے مرتبے کی تو نہیں لیکن ان تین بڑی آپ بیتیوں کے بعد اسی کا نمبر آتا ہے۔ جوش اور احسان کے ساتھ شہرت کو ایک گونا مماثلت بھی ہے کیونکہ یہ تینوں شاعر ہیں لیکن اپنی آپ بیتیوں کے حوالے سے نثرنگار بھی ثابت ہوئے ہیں۔عدیل لکھتے ہیں کہ ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ کا انداز داستان سے بہت ملتا جلتا ہے ۔

اس میں وہ کہانی کہتے چلے گئے ہیں ۔ شہرت بخاری نے گئے دنوں کا قصہ بھی سنایا ہے اور عصر حاضر کی کٹھن گھاٹیوں کو بھی موضوع سخن بنایا ہے لیکن کمال یہ دکھایا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک غیر مرئی لیکن نہایت طاقتور رشتہ قائم کردیا ہے اور وہ رشتہ روایت اور اسلوب کا رشتہ ہے جس نے ایک طرف طلوع آفتاب کا منظر دکھایا ہے تو دوسری جانب ڈوبتے سورج کے سمے کو اپنی گرفت میں اس طرح لے لیا ہے کہ سفر خورشید کے تمام راستے خود اس کی اپنی روشنی میں واضح ہوگئے ہیں۔ اس آپ بیتی میں روشنی بھی نظر آتی ہے اور اس روشنی کی تیز شعاعوں میں بہت سے راستوں کے منظر بھی کھلتے نظر آتے ہیں جو کشاں کشاں ماضی کی ان دیکھی بستیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔‘‘عدیل لکھتے ہیں ۔

ڈاکٹر وزیر آغا کی آپ بیتی ’’شام کی منڈیر سے ‘‘ ایک دانشور کی لکھی ہوئی آپ بیتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ دانشوروں کے لیے لکھی گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ انھوں نے زندگی کے کسی واقعے کو اس میں اس لیے درج نہیں کردیا کہ واقعہ ان پر بیتا تھا بلکہ وہ ان کی یادداشت کا حصہ ہی تب بنا جب وہ تخلیقی عمل سے گزر کر ایک خاص جہت، ایک خاص ہیئت اختیارکرگیا اور پھر جب انھوں نے اسے اپنی آپ بیتی میں شامل کیا ہے تو اسے ازسر نو تخلیقی عمل گزارا ہے۔ اس لیے اس آپ بیتی کو کوئی بھی شخص اپنی آپ بیتی نہیں سمجھ سکتا۔ قاری کو ساتھ لے کر وزیر آغا بھی چلے ہیں مگر صرف اپنے علم کے سہارے نہیں، اس کا اپنا علم بھی جب تک اس کی رہنمائی نہیں کرتا تب تک دونوں ہم سفر نہیں بن سکتے۔‘‘ ’’شام کی منڈیر سے‘‘ اپنی طرز، ہیئت، موضوع، اسلوب اور واقعات کی بنت کے اعتبار سے ایک منفرد آپ بیتی ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا شاعر ہیں، نقاد ہیں، انشائیہ نویس ہیں، اس آپ بیتی میں یہ تینوں سطحیں مسلسل نظر آتی ہیں۔جمیل احمد عدیل نے اشفاق احمد کی تخلیقات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’ہمیں ان کے ہاں مافوق الفطرت عناصر کا داستان میں جزو لاینفک ہونا نظر آتا ہے۔ فی الحقیقت وہ داستان گو ہیں۔ حقیقت کو افسانے کے سانچے میں ڈھالنے کا ہنر انھیں آتا ہے اور اس قدر آتا ہے کہ اکثر ان کی باتیں افسانے، ڈرامے، سفرنامے قاری کے قلب و ذہن پر ویسے ہی اثرات مرتسم کرتے ہیں جیسے ایک انسان کو کرنے چاہئیں بلکہ بعض اوقات ان کے اسلوب پر گہری افسانوی چھاپ کی وجہ سے حقیقی باتیں بھی افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔‘