(سمیرا عنایت)

 

وہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے فرش زور زور سے صاف کیے جارہی تھی۔ آٹھ سال کی عمر میں اسے ہر وہ کام کرنا پڑتا جس میں اسکی طاقت سے زیادہ مشقت لگتی . .” اسکے پاس کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں تھی۔  کیونکہ وہ جانتی تھی اسکی  ماں اسے بہت پیٹے گی .

             ………………………   

صابرہ یہاں آؤ اور آج غور سے میری بات سنو . مرحا کالج سے آتے ہی اپنی ماسی پر برس پڑی تھی .  ماہ نور کو کام کرتا دیکھ کر اسکا خون کھول اٹھا تھا . ماسی کو جیسے کٹھرے میں کھڑا کر کے اس نے جرح شروع کردی تھی . صابرہ میں نے منع کیا تھا ماہ نور کام نہیں کرے گی – اسکا داخلہ سکول میں کروایا تھا – تم اسے پھر کام پر لے آئی –  چھوٹی باجی ناراض نہ ہوں جی ، ہم بہت مجبور اور غریب لوگ ہیں . ساتھ کام نہیں کرے گی تو میں اکیلی بوجھ نہیں اٹھا سکوں گی اور اس نے پڑھ کر کرنا بھی کیا ہے . میری طرح کسی گھر کے برتن ہی مانجھےگی۔ ماسی کی  دلیل سن کر  مرحا نے اسکا حل  بھی سوچ لیا تھا۔ ضدکی پکی تو وہ شروع سے تھی ، اس نے ٹھان لیا تھا ماہ نور کو پڑھائے گی . اپنی ماں سے ضد کرکے صابرہ کی تنخواہ میں اضافہ کروا دیا تھا .  تاکہ وہ زیادہ گھروں میں کام نہ کرے اور اسکی بیٹی سکون سے پڑھ سکے .

ماں نور بچے کل سے تم روز سکول جانا اور ضرورت پڑے تو میرے پاس پڑھنے کے لیے آجایا کرنا . مرحا نے بہت پیار سے اسے یہ خبر سنائی تھی . اسکی معصوم آنکھوں سے جیسے خوشی روشنی کی طر ح پھوٹنے لگی تھی . اسے سکول جانے کا بہت شوق تھا . وہ پڑھ لکھ کر اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنا چاہتی تھی۔ ماہ نور کے دو بہن بھائی تھے۔ باپ کا کام مارنا  پیٹنا لعن طعن کرنا تھا .  دیہاڑی لگتی تو پیسے مل جا تے  ورنہ خالی ہاتھ گھر لوٹتا .

ماه نور سکول جانے کو ترستی تھی ، آخر  مرحا کی کوششوں سے اسکا خواب پورا ہونے  جارہا تھا۔

                …………………..

ارے واہ  ماہ نور تم تو بہت پیارا لکھتی ہو . پر تمہارے پاس لکھنے کے لیے تو کچھ نہیں تھا پھر کیسے پریکٹس کی۔  مرحا باجی میں  چاک سے  کبھی فرش پر لکھتی تھی اور کبھی راستے میں پڑے کاغذ  چن کر . ایسے ہی پریکٹس کی . اماں ابا مجھے بہت مارتے ہیں پر میرا شوق ہے  لکھنا پڑھنا . مرحا سوچ میں پڑ گئی تھی ، نا جانے کتنی معصوم بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں پر حالات اجازت نہ دیں تو پہلے بچیوں کی تعلیم ہی روکی جاتی ہے. میں اسے پڑھاؤں گی . آخر غربت کی چین کہیں تو  ٹوٹنی چاہیے . اسکی خواہش تھی کے کوئی تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اس مہم کا آغاز وہ گھر کی ماسی سے کر چکی تھی                 ………….. ………..

 مرحا کے والدین استاد تھے اسکے باوجود ماہ نور کو پڑھانے کے لیے اسے کافی جدوجہد کرنا پڑی . اسکی سوچ کے مطابق گھروں میں کام کرنے والی خواتین مظلوم ہوتی ہیں . وہ سارا دن مشقت کرتی ہیں ، گھروں میں شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں سے مار و تانے سنتی ہیں۔ ساری خواہشیں دل میں دبا کر بڑھاپے سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ ہم کسی ایک لڑکی کی قسمت تو بدل سکتے ہیں۔ بہت نہ ہی ایک مناسب زندگی گزارنا تو ان کا بھی حق ہے

                  …………………      

ماہ نور پانچیوں میں بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئی تھی ، پھر بھی اسکے چہرے پر گہری اداسی تھی جو مرحا کو بے چین کیے جا رہی تھی۔ بیٹا یہاں آؤ تم نے اتنے اچھے نمبر لیے ہیں پھر بھی اتنی اداس کیوں ہو . سوال کے جواب میں ماہ نور کے آنسو تھے اور مرحا کی بڑھتی ہوئی تشویش .

                   ……………….

 ماما یہ تو ظلم ہے وہ ابھی بچی ہے . آپ صابرہ کو سمجھائیں ابھی ماہ نور کی شادی کا خیال دل سے نکال دے . اسکی عمر تو بہت کم ہے اور وہ پڑھنا چاہتی ہے. مرحا شدید غم و غصے میں اپنی ماں سے مخاطب تھی . بیٹا میں کیا کرسکتی ہوں، ان کی اپنی مجبوریاں ہیں . صابره کب تک اپنے خاندان والوں سے لڑسکتی ہے . تم نے اپنا فرض پورا کیا ، پوری کوشش کی اب اس معصوم بچی کے لیے دعا کرو کے اس کی آنے والی زندگی آسان ہو . مرحا خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی . اسکی ساری کوشش اور محنت آج اسے ضائع ہوتی محسوس ہور ہی تھی۔ کاش میں  اس معصوم کے لیے کچھ کرسکتی . دل میں ایک چبھن کے ساتھ یہ خیال مرحا کو ستارہا تھا۔

                 …………………….

سلام بڑی باجی ، ارے صابرہ اتنے عرصے بعد شکل دکھا رہی ہو . کم سے کم کوئی اطلاع کوئی ا تا پتہ تو دے جاتی . کتنی کوشش کی تم سے رابطے کی نہ فون نمبر ملتا تھا نہ کسی کو تمہاری کوئی خبر تھی۔ صابرہ کی آنکھوں میں آنسو تھے ، اسکے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ باجی، چھوٹی باجی ٹھیک کہتی تھیں میری ماہ نور کی شادی جلدی نہ کرو ، اسے پڑھنے کا شوق تھا . پر میں بھی بے بس تھی . اپنے شوہر اور خاندان کو ناراض نہیں کر سکتی تھی۔ میری بیٹی کو شوہر نے گھر سے نکال دیا بد بخت کو بیٹی نہیں بیٹا چاہیے تھا . برباد ہوگئی میری بچی۔

                       ………………..    

مرحا کے لیے یہ سب ناقابل یقین تھا . اس دور میں بھی  ایسی جہالت موجود ہے وہ حیران تھی . وہ جلد از جلد ماہ نور سے ملنا چاہتی تھی

                      ……………….

سامنے کھڑا مرجھایا وجود دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی تھی۔ کیا یہ وہی روشن چہرہ تھا جسے دیکھ کر سب کہتے تھے کہ واقعی یہ  ماہ نور ہے۔ اسکے ہاتھوں میں ننھا سا پھول بے پروہ تھا کے اسکی ماں پر کیا بیتی اور آگے اس پر کیا بیتنے والی ہے . کیا نام ہے اسکا ، کتنی پیاری ہے- چھوٹی باجی ابھی تک اسکا کوئی نام نہیں رکھا . آپ ہی بتائیں کیا نام رکھوں .

اقرا ، اسکا نام اقرا رکھو . مرحا نے مضبوط لہجے میں اس نام کا انتخاب کیا تھا . مجھے یقین ہے یہ پڑھ لکھ کر اپنی جیسی اور لڑکیوں کے لیے مثال بنے گی . یہ سب کی امید ہوگی .

چھوٹی باجی آج میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں میں اسے ایک اور ماہ نور نہیں بننے دوں گی . یہ اپنے نام کی لاج رکھے گی . اور میں آخری سانس تک اسکی حفاظت کروں گی تاکہ یہ اچھی تعلیم حاصل کرے اور  اسکی زندگی سنور جائے. مرحا کو  اطمنان ہو چکا تھا . اسکی محنت رائگاں نہیں ہوئی۔ اسکا جلایا ہوا دیا بھلے مدھم ہو گیا تھا ، پر اب وہ دیا آگے روشنی پھیلائے گا اقر۱ کی صورت میں .