میراث

محمد مبشر انوار

علم مؤمن کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور یہ مؤمن کا حق اور فرض ہے کہ وہ اپنی بکھری ہوئی اس میراث کو اپنے دامن میں ہر صورت سمیٹے۔ آج امت مسلمہ کی بدقسمتی دیکھئے کہ اکثریت کے نزدیک ”تعلیم“ ہی در حقیقت علم ہے اور تعلیم بھی وہ جو درسی کتب میں پڑھائی جاتی ہے اور اکثر اساتذہ ان درسی کتب کو رٹانے میں بنیادی کردار ادا کرتے تو بیشتر طلباء کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جیسے تیسے کرکے امتحانات میں پاس ہو جائیں،سرٹیفکیٹ کے نام پر ایک عدد کاغذ کا ٹکڑا حاصل کر لیں اور عملی زندگی میں اس سرٹیفکیٹ،سفارش یا رشوت کے بل بوتے پر کوئی نوکری حاصل کر لیں۔ معاشرے میں علم و حکمت و دانائی کے موتی ایسے ”تعلیم یافتہ“ افراد سے کہیں زیادہ ان افراد میں ملتے ہیں جو درسی کتب کی بجائے معاشرے کو پڑھتے ہیں،معاشرتی رویوں سے سیکھتے ہیں،سماجی طور اطوار،رسم و رواج کو اپنا استاد بناتے ہیں،جن کی بنیادی تربیت،بنیادی درسگاہ انہیں تہذیب و تمیز سکھاتی ہے۔ یہ اخلاق و اطوار ان درسی کتب میں کہاں ملتے ہیں جن کی بنیاد ہی مادہ پرستی پر استوار کی گئی ہے ماسوائے ان چند افراد کے،جو حقیقتا قدرت کے رازوں کو سمجھنے کی تگ و دو میں سرگرداں ہوں،اور اپنی تحقیق سے،سائنسی اصولوں پر اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ یہ دنیا واقعتا عارضی دنیا ہے اور یہاں بسنے والے انسانوں کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے بھیجا گیا ہے یا قدرت یہ چاہتی ہے کہ اس دنیا میں بسنے والوں کی مدد کرنا،ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرنا،ایک دوسرے کے لئے راہیں ہموار کرنے میں ہی ابدی کامیابی ہے۔ دوسری طرف کرہ ارض پر بسنے والے انسان ہیں جو ہوس زر و اقتدار کی خاطر کچھ بھی کرنے سے نہ گریزاں ہیں اور نہ ہی چوکتے ہیں،اکثر افراد کی زندگی کا محور فقط ان کی اپنی ذات کی نمود نمائش یا افزائش ہے،معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بے بہرہ لوگوں کی دنیا بنتی جا رہی ہے،جس میں ذاتی مفاد کے حصول میں کسی بھی حد سے گذر جانے کو حق فائق تسلیم کر لیا گیا ہے۔

کتاب تنہائی کی بہترین دوست ہے اور کتاب ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو اخلاقیات سے روشناس کرواتی ہے،علم و ادب و تہذیب کی پہچان کرواتی ہے لیکن بد قسمتی سے اس وقت مسلم ممالک کی اکثریت اپنے اس دوست کی دوستی سے محروم نظر آتی ہے جبکہ ایک وہ وقت تھا کہ بغداد کا کتب خانہ پوری دنیا کے لئے ایک مثال تھااور غیر مسلموں نے بغداد کو تاراج کرتے ہوئے ایک طرف اس کے کتب خانوں کو نذر آتش کیا،دریا برد کیا تو دوسری طرف اہل یورپ اس بے بہا خزانے کو اپنے ساتھ لے گئے۔ آج کا مہذب و ترقی یافتہ مغربی معاشرہ درحقیقت اسی بیش بہا خزانے کی بدولت ہے کہ سائنس کے وہ بنیادی کلئے،جن کے باعث مغرب آج نہ صرف ترقی یافتہ ہے بلکہ اقوام عالم پر راج کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مسلمان تہذیب و ترقی کے اس بنیادی کلئے سے ہٹ گئے یا ہٹا دئیے گئے یا قانون قدرت کے مطابق وقت کو قوموں پر الٹا دیا گیا،آج کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا کتاب سے تعلق برائے نام رہ گیا ہے،مسلمانوں کی ترجیحات میں اب نمودو نمائش،جاہ و حشمت کے علاوہ ہوس زر و اقتدار باقی نظر آتی ہے اور یہ ہوس زر و اقتدار بھی حکمرانوں کی دین ہے کہ عوام اسی روئیے کی پیروی کرتی ہے،جو اس کے حکمران اپناتے ہیں۔ علاوہ ازیں! کسی بھی مشترکہ مقصد کے حصول میں بھی یہ حقیقت نمایاں نظر آتی ہے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ایک معمول بن چکا ہے،اصل مقصد بالعموم پس پشت ڈال دیا جاتا ہے،اس کی بیشتر مثالیں ہمیں مسلم ممالک میں واضح نظر آتی ہیں جہاں حکمران فقط اپنی چوہدراہٹ کے چکر میں انتہائی سود مند منصوبوں کو بھی دیمک کی مانند زمیں بوس کرنے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے۔یہ وہ رویہ ہے جو کسی زمانے میں مغرب میں نمایاں تھا اور جس کی وجہ سے مغرب باہمی چپقلشوں و لڑائیوں میں غرق تاریکیوں کا مسافر تھالیکن آج وہی مغرب و مہذب و ترقی یافتہ ممالک ہیں،یورپی یونین ہے،امریکہ و کینیڈا ہے،آسٹریلیا و نیوزی لینڈہیں جہاں معاملات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا ہے،مذاکرات کو اختلافات کا حل سمجھا جاتا ہے،کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کئے جاتے ہیں،سرحدوں پر آمد رفت کے لئے سہولتیں میسر ہیں۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی طرف دیکھیں تو ہمارے درمیان اختلافات کی خلیج خودقائم کر کے باقی ماندہ کام ہمارے آقاؤں کے لئے سہل ترین کر دیا ہے،جو اپنے ہتھیاروں کی فروخت کے لئے زمین ہموار پاتے ہیں،اختلافات کو مزید فروغ دینے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے،ایک خدا،ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے والوں کے دلوں کو کدورتوں سے بھرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے اور یوں ہمارے وسائل ہم سے چھین کر ہمیں مسائل کی دلدل میں دھکیلتے چلے جا رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ مسلم ممالک میں علم و حکمت و دانائی والے ذہن باقی نہیں رہے،یا ایسے افراد کی کمی ہے جو امت مسلمہ کے درد کو محسوس نہیں کرتے یا اس کے اتحاد کے داعی نہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان کا اختیار اتنا نہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہو سکیں،اس کی بنیادی وجہ اتنی سی ہے کہ بظاہر تعلیم یافتہ حکمران جن طریقوں سے اقتدار پر براجمان ہیں اس میں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،علم سے پیدل ہیں یا دوام اقتدار نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔

مغرب میں یہ تہذیب،تحمل و برداشت،اختلاف رائے پر مذاکرات،معاملہ فہمی و دیگر امور کو طے کرنے کی صلاحیت کیسے اور کیونکر پیدا ہوئی؟اس کے اعداد وشمار انتہائی دلچسپ ہیں،آئی لینڈ میں 93%آبادی سال میں ایک کتاب لازم پڑھتی ہے،سکینڈے نیوین ممالک میں 95%آبادی پڑھی لکھی اور سال میں کم ازکم14 کتابیں پڑھنے کی عادی ہے اور اہم بات اس میں یہ ہے کہ اکثریت کتب خانوں (لائبریریز)میں جا کر کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ کتب بینی کی اس شرح کے ساتھ یہ بات یقینی ہے کہ کس طرح مغربی معاشروں میں تحمل،برداشت،رواداری و وضع داری بڑھی ہے،تہذیب کیسے اور کتنی پروان چڑھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی مدد پر دوسرے کو”تھینک یو“ کہنا اوراپنی چھوٹی سی غلطی پر ”سوری“ کہنے کا رواج انتہائی عام ہے،نہ تو کوئی تھینک یو کہنے سے قد آور ہو جاتا ہے اور نہ سوری کہنے سے کسی کی شان میں کمی آتی ہے۔البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ تھینک یو کہنے سے دوسروں کی مدد کرنے میں مزید تحریک ملتی ہے اور سوری کہنے پر اپنی غلطی کا احساس ہوتا اور آئندہ اس سے باز رہنے کا سلیقہ و سبق ملتا ہے لیکن معاشروں میں صد فیصد افراد ان اخلاقی قوانین کو نہیں مانتے اور مغربی معاشروں میں بگڑے افراد موجود ہیں،جن کی وجوہ دوسری ہیں،تاہم بحیثیت مجموعی مغربی معاشروں میں اخلاقی اقدار زیادہ بروئے کار ہیں۔ مغربی و ترقی یافتہ معاشرے کتب بینی کو اہمیت کو سمجھتے ہوئے،دور جدید میں ہر چیز انٹرنیٹ پر میسر ہونے کے باوجود کتب خانوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں کہ انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر ملنے والا مواد ضروری نہیں کہ مستند بھی ہوجبکہ کتاب میں موجود مواد کی صحت سے انکار ممکن ہی نہیں۔

پاکستان میں تعلیم،صحت یاکتب بینی حکومتی بزرجمروں کی ترجیحات میں کبھی رہے ہی نہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ 1949میں کئے گئے وعدے کہ ہر سکول میں ایک کتب خانہ مہیا کیا جائے گا،اب تک ایفا ہونے کے منتظر ہے۔اس پس منظر میں پاکستانیوں کے جذبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ریڈ پاکستان ٹرسٹ نے کتب بینی کے احیاء کا بیڑہ اٹھایا ہے اور منصوبے کے مطابق ایک لاکھ کتب خانوں کو رو بہ عمل لانے کی کوششیں جاری ہیں،طلباء میں بالخصوص اور بڑوں میں بالعموم کتب بینی کا شوق پیدا کرنے کا جذبہ لئے ریڈ پاکستان کی ٹیم قریہ قریہ،گلی گلی،شہر شہر،گاؤں گاؤں اور ملکوں میں مصروف عمل ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ریڈ پاکستان کو اپنے اس مقصد میں کامیاب کرے اور کھوئی ہوئی میراث کو سمیٹنے میں معاون ہو۔ آمین

(The writer is President Read Pakistan for Saudia Arabia)

0