حضرت انسان اور کتاب کا رشتہ بہت قدیم ہے، اولین معلمین انسانیت، انبیاء علیھم السلام، نے آسمانی ہدایت کو کتب و صحائف کے ذریعے ہی انسانوں میں متعارف کرایااور جب ان مقدس ہستیوں نے اس دنیاسے پردہ فرمایاتواپنے ترکے میں مال و زر اورجاہ و جلال و جائداوسلطنت واقتدارکی بجائے علوم کتب کا ترکہ چھوڑ کر گئے۔ ایک حدیث نبویﷺکے مطابق کم و بیش تین سو تیرہ کتب آسمان سے نازل کی گئیں جن میں چار کا ذکر بصراحت قرآن مجید میں موجود ہے جب کہ اس دنیا میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کے پاس حضرت نوح علیہ السلام سے منسوب ایک کتاب موجود ہے جن کا شمار انسانیت کے قدیم ترین اوراولین انبیاء علیھم السلام میں ہوتاہے۔ کتاب ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کی شناخت رہی ہے اور طالب علم کے لیے کتاب ایک زیور کی حیثیت رکھتی ہے، تنہائی کی بہترین ساتھی ہے اورپریشانی میں مسائل کامداواپیش کرتی ہے۔ انسانیت کا سب سے پہلا استاد، خالق کائنات، اﷲتعالی کو کتاب سے نسبت اس حد تک پسند ہے کہ اس نے اپنے نبیوں کے ماننے والوں کو اہل کتاب کے نام سے یادکیاہے خواہ وہ یہودی ہوں، مسیحی ہوں یامسلمان ہوں اور یہ اس لیے کہ اس نے آسمان سے ہدایت کے سامان کے طور پر کتب کے نزول کو پسند فرمایا۔ کتاب کا لفظ ذہن میں آتے ہی صفحات کی ایک مجلدشکل ذہن میں ابھرتی ہے لیکن ایک زمانے میں پتھرپر لکھی ہوئی کتب دستیاب ہواکرتی تھیں اور ظاہر ہے ان کی تدوین، حفاظت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال نہایت ہی ایک دقت طلب امرتھالیکن اس کے باوجود انبیاء علیھم السلام اور انکے مقدس پیروکاروں نے اپنی کتب کو اگلی نسلوں تک خوب خوب پہنچایا۔
اﷲتعالی نے قلم کااستعمال سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام کو سکھایاتھاجس کے بعد سے قبیلہ بنی نوع انسان میں کتابت کے عمل کاآغازہوا۔ انسانی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق انسان کااولین فن تحریر تصویری نوعیت کاتھااور انسان نے اپنے جذبات اوراحساسات کے اظہار کے لیے تصاویرکے وسیلے کواپنایا، آہستہ آہستہ زبان سے نکلے گئے الفاظ کو پتھروں پر ایک خاص شکل دی جانے لگی لیکن چونکہ پتھرپر نقوش کامرتب کرنااپنی کمیت، حجم اور وزن کے اعتبارسے ایک مشکل امرتھااس لیے بہت جلدانسان نے اس مقصد کے لیے لکڑی کااستعمال شروع کردیاجواگرچہ پتھرکی نسبت آسان تر مراحل کی حامل تھی لیکن اپنی مدت حیات میں کسی طور بھی پتھرکامقابلہ کرنے سے قاصرتھی اوربوجوہ بہت جلداپنے انجام تک پہنچ جاتی تھی۔ تب انسان نے مٹی کی بنی ہوئی تختیاں استعمال کرناشروع کیں جوکہ قبل از تاریخ کے ’’موسپوطینی ‘‘دورسے کم و بیش ساتویں صدی قبل مسیح تک بکثرت استعمال ہوتی رہیں۔ ایک تکوناہتھیارکے ذریعے مٹی کی تختیوں پر حروف کندہ کیے جاتے تھے اورپھران تختیوں کوآگ کی بھٹی میں خوب پکایاجاتاتھاجس سے وہ ایک زمانے تک ناقابل تسخیردستاویزکی شکل اختیار لیتی تھیں۔ ’’نینوا‘‘جواپنے وقت میں دنیاکاسب سے بڑا شہرتھااورجوعراق کی قدیم تہذیب بھی سمجھی جاتی ہے 612ق م کی بنی ہوئی بائس ہزار تختیاں یہاں سے ملی ہیں جن پر اس زمانے کی تحریریں نقش ہیں۔ جرمنی، چلی اور افریقہ کے صحرااعظم ’’صحارا‘‘میں مٹی کی تختیاں انیسویں صدی کے آخر تک بھی لکھی جاتی رہیں۔
قدیم مصر کی تہذیب تدوین کتب میں بہت عمدہ اور ترقی یافتہ تھی، وہ لوگ ایک خاص قسم کے درخت ’’نرسل‘‘(papyrus )کی شاخوں سے کسی طرح کامحلول کشید کرتے تھے جو سیاہی یاروشنائی کاکام دیتاتھااور پھر پرندوں کے پروں کوایک خاص انداز سے کاٹ کر ان سے قلم کاکام لیتے تھے۔ اسی طرح درخت کے پتوں کوایک خاص اندازسے تیارکرکے تواس پر مقدس کتب کے احکامات یا بادشاہوں کے فرامین نقل کر لیاکرتے تھے۔ پیپرس کے درخت کی بنی کتابوں کے ورق ایک دوسرے پررکھ کرانہیں اکٹھاکرکے گول گول موڑ لیاجاتاتھا اور بعض اوقات ان کی لمبائی دس میٹر سے بھی زائدہو جاتی تھی۔ اس طرح کی کتب فراعین مصرکے اہراموں سے ملی ہے، رامسیس سوئم کی لکھی گئی تاریخ چالیس میٹر طویل کتاب پر لکھی گئی ہے، ایک ایک صفحے پرکئی کئی کالم بنائے ئے ہیں اور کتاب کے اوراق کو بڑی نفاست سے محفوظ کیاگیاہے۔ کھال اور ہڈیوں پر لکھنے کاآغازقدیم چین کی تہذیب سے ہوااور انسانی وسائل بتاتے ہیں کہ تاریخ میں سب سے پہلے کاغذکی ایجادچین کے اندر پہلی صدی عیسوی میں ہی ہو چکی تھی۔ اگرچہ یہ کاغذ ابتدائی طرزکے گتے کی مانند تھا تاہم کتاب کی تاریخ میں ایک عہدساز پیش رفت تھی جس کا سہرا چینیوں کے سر جاتاہے۔ ابتدائی کے طرز کے اس کاغذپر برش نما کسی قلم سے جس کی دم میں بہت سے بال ہوتے تھے، لکھاجاتاتھے۔ چینیوں کی اس میدان میں ایک اور اہم اور نمایاں کامیابی طباعت کاعمل ہے جس کاآغاز بھی چینیوں کے ہاں سے ہوااور ابتدائی طور پر طبع کی ہوئی کتب میں بدھ مت کے احکامات لکھے گئے۔
امت مسلمہ کی تاسیس نوسے کتب نویسی کے گھوڑے کوگویاایک ایڑھ سی لگ گئی۔ مکی دورمیں جب پڑھنالکھناایک اضافی اور بے فائدہ امرسمجھاجاتاتھامحسن انسانیت ﷺ نے لکڑی پر، اونٹ کے شانے کی ہڈی پر، کھال پر، ابتدائی طرز کے گتے پر، بوسیدہ کپڑوں پر، پتھروں پر اور کھجورکی چھال پر قرآن مجید کی کتابت کااہتمام کیا۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اﷲتعالی عنہ نے قرآن مجید کی سات نقول تیارکروائیں جن میں ایک نسخہ آج بھی مصحف عثمانی کے نام سے ترکی میں موجود ہے۔ کتابت حدیث کے زمانے میں اور اس کے بعد تو مسلمانوں نے گویا کتاب کی ایک عظیم الشان تاریخی تہذیب کو جنم دیااورایک ہزاسالوں تک اس کی پرورش کی۔ خاص طورپراندلس میں کتب خانے عموماًً دوقسم کے ہوتے تھے، ایک خاص اور دوسرے عام، خلفا، امرا، علما اور اہل ثروت کی طرف سے عام قسم کے کتب خانے قائم کیے جاتے، ان کے لیے مستقل اور پختہ عمارتیں ہوتیں اور بعض اوقات یہ بڑی مساجد اور مدارس سے ملحق ہوتے۔ شاہی کتب خانے، درس گاہی کتب خانے، ذاتی کتب خانے اور عوامی کتب خانے، کتب خانوں کی مزید اقسام تھیں، شہر غرناطہ میں صرف عوامی کتب خانوں کی تعداد ساٹھ یا ستر تھی اور قرطبہ میں بھی ستر لائبریریاں تھیں نیز ہر بڑے شہر میں کم از کم ایک بڑا کتب خانہ ضرور ہوتا تھا جس کی الماریاں بلا تخصیص و بلا امتیاز ہر شخص کے لیے کھلی رہتی تھیں اور ہر کتب خانے میں فہرست کتب بھی مہیا رہتی۔ ان کتب خانوں کے مالک روسا ہوتے جو خود تو عالم نہ تھے لیکن اپنے قائم کیے ہوئے کتب خانوں پر باہم فخر کرتے تھے، حتی کہ غیر مسلموں کے بھی کتب خانے ہوا کرتے تھے۔ کتب خانے کا قیام ریاست کی شان سمجھا جاتا تھا، چنانچہ ہر بڑ ے شہر میں کم از کم ایک سرکاری کتب خانہ ضرور تھا، اسی سرکاری سرپرستی کا نتیجہ تھا کہ ہر ہر گھر میں بھی عورتوں مردوں کے ذاتی کتب خانے قائم ہو گئے تھے، یہ کتب خانے ان کتب سے بھرے رہتے جو پچھلے زمانے کے علمائے یونان سے اور فلاسفہ اسکندریہ کی کتب سے انہوں نے نقل و ترجمہ کی تھیں۔
اسلامی ادوارمیں کتب خانوں کی الگ اور مستقل عمارتیں ہوتیں، جن میں متعدد کمرے ہوتے، کمروں کے درمیان بڑے بڑے ہال ہوتے جو آپس میں ملے ہوتے‘کتابیں دیواروں پر لگے کارنسوں پر چنی جاتیں، ہر کمرہ علم کے خاص شعبے کے لیے مخصوص ہوتا، مطالعہ کرنے والوں اور کاتبوں کے لیے الگ الگ کمرے ہوتے، بعض کتب خانوں میں ایک کمرہ موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا جہاں ذہنی تھکاوٹ دور کی جاتی، بعض کمروں میں قالین بچھے رہتے اور بعض میں بہترین فرنیچر اور باہر سے آنے والوں کے لیے قیام و طعام کا عمدہ انتظام ہوتا، بعض کمروں میں علمی مباحثے ہوتے، اس دوران طلبہ نوٹس لیتے اور انہیں کاغذ و قلم مفت فراہم کیا جاتا۔ مہتمم کتب خانے کا عہدہ قصر شاہی میں سب سے بڑا عہدہ تصور کیا جاتا، جس پر کسی خاص آدمی کو تعینات کیا جاتا جو کتب خانے میں کتابیں تیار کرانے، جمع کرنے اور انکی محافظت کا ذمہ دار ہوتا۔ لائبریری کو ُ ُخزانۃ الکتب‘‘ کہتے تھے جس کا ڈائرکٹر ُ ُ وکیل ‘‘ کہلاتا تھا، اسکی معاونت کے لیے ُ ُخازن‘‘ ہوتا، ان کے ساتھ ایک انسپکٹر ہوتا جسے ُ ُ مشرف‘‘ کہا جاتا، مشرف نچلے عملے کا نگران ہوتا۔ صوبائی دارالحکومتوں میں قائم صوبائی کتب خانوں کے مہتمم اعلی گھرانوں کے افراد ہوتے اور شاہی کتب خانے کا انچارج عموماًً شاہی خاندان کا فرد ہوتا، اندلس میں عبدالعزیز بن عبدالرحمن ثالث جو امیرالمومنین حکم ثانی کا بھائی تھا اس عہدہ پر فائز رہا۔
عام لائبریریوں میں موجود ملازمین کے بڑے افسر کو ُ ُ خازن مکتبہ‘‘ کہا جاتا، اس عہدے پر وقت کے مشہور علما میں سے کسی کو متعین کیا جاتا، کچھ افراد مطالعہ کرنے والوں کو فراہمی کتب پر متعین ہوتے انہیں ُ متناول‘‘ کہا جاتا، کچھ لوگ دیگر زبانوں سے تراجم کا کام کرتے، وراق اور نقل نویس مختصر وقت میں کتب کی نقول تیار کرتے اور جلد ساز ان کی پختہ اور مضبوط جلد بندی کرتے۔ ہر چھوٹے بڑے کتب خانے کے باہرایک فہرست آویزاں ہوتی جس کی مدد سے مطالعہ کنندگان کتب خانے سے استفادہ کرتے، الماری کے ہر خانے کے باہر، اندر کی موجود کتب کے نام لکھے لٹکتے رہتے اس فہرست میں یہ تفصیل بھی درج ہوتی کہ کونسی کتاب مکمل ہے اور کس کتاب کا کتنا حصہ غائب ہے، یہ فہرست مختلف علوم کے لحاط سے مرتب کی گئی ہوتی۔ مطالعہ کی خاطر استعارہ کتب کا رواج بھی تھا، عام لوگ ضمانت پر کتب لے جاتے لیکن علما کو بغیر
ضمانت کے بھی کتابیں مل جاتیں، اور بعض اوقات کچھ علما تو ایک ایک سو کی تعداد تک کتب کا اجرا کروا لیتے تھے۔ کتاب لینے والے سے پرزور درخواست کی جاتی کہ:
ا۔ کتاب کو حفاظت سے رکھے۔
۲۔ مالک کی اجازت کے بغیر اصلاح نہ کرے۔
۳۔ حاشیہ پر کچھ نہ لکھے، کتاب کے اول و آخر تمام اوراق سادہ رہیں ۔
۴۔ مالک کی اجازت کے بغیر خلاصہ تحریر نہ کیا جائے۔
۵۔ کتاب مزید مستعار نہ دی جا سکتی تھی۔
۶۔ مالک کے تقاضے پر فوراًً واپس کر دی جاتی۔
۷۔ کتاب کے الفاط مٹائے نہ جاتے اورکتاب خراب نہ کی جاتی۔
اکثر کتابیں مطلا و مذھب ہوتیں، قیمتی کتب کی جلدیں خوشبودار لکڑی اور پھول دار چمڑے سے باندھی جاتیں، بعض پر سونا بھی چڑھا ہوتا، اکثر کتب خانوں میں کتابوں کے صندوق عود و عنبر، آبنوس اور صندل سے بنے ہوتے۔ کتب خانوں کے لحاظ سے قرطبہ کو سب شہروں پر برتری حاصل تھی، دنیا کے کسی شہر میں اس قدر علمی کتب موجود نہ تھیں جتنی کہ قرطبہ میں۔ اشبیلیہ میں جب کوئی عالم فوت ہو جاتا تو اسکی کتب بکنے کے لیے قرطبہ لائی جاتیں، یہاں کے امرا کتب خانوں کے قیام پر باہم فخوررہتے، اندلس کے ایک وزیر ابو جعفر احمد بن عباس نے کئی لاکھ کتب جمع کی تھیں، طلیطلہ کے ایک فرد ابراہیم بن محمد کا بہت بڑا کتب خانہ تھا، قرطبہ کے ہی ایک باسی احمد بن محمد المعافری جنکی کنیت ابو عمر تھی کے پاس ایک بہت بڑا ذخیرہ کتب موجودتھا ، اشبیلیہ، غرناطہ، مرسیہ اور طلیطلہ میں بہت بڑے بڑے کتب خانے موجود تھے اور غرناطہ میں تو کتب خانوں کی تعداد ستر تک بھی بتائی جاتی ہے، پس مسلمانوں کی اسلامی تہذیب دراصل ’’کتاب‘‘ کی تہذیب تھی۔
اندلس کاامیرالمومنین حکم ثانی علوم کا جامع تھا اور ان سے محبت کرتا تھا، علوم و فنون کا شیدائی اور اہل علم و فضل کا قدردان تھا، یہ خلیفہ اپنے علوم، مطالعہ، اخبار، معرفۃالنسب اور تقید الآ ثار میں یگانہ روزگار تھا۔ خلیفہ نے حکم دے رکھاتھا کہ جس قدر نایاب کتب دستیاب ہوں زرکثیر خرچ کر کے انہیں خرید لیا جائے اور جو کتاب قیمتا نہ مل سکتی ہو اسے نقل کروا لیا جائے۔ حکم ثانی کے دور میں اندلس علوم و معارف کا گہوارہ بن گیا، علم و ہنر کا یہاں تک چلن ہوا کہ عورتیں بھی فضل و کمال میں کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ قرطبہ ایک ایسی علمی مارکیٹ میں تبدیل ہو گیا تھا جس میں ہر ملک کی علمی و ادبی تخلیقات دستیاب تھیں، بیس ہزار دکانیں تو صرف کتابوں کی تھیں اور بیشتر کتب فروش تواپنے اہتمام سے کتابوں کی نقول تک تیار کرتے تھے۔ محکمہ تعلیم کے استحکام اور اسکے رعب کو قائم رکھنے کے لیے حکم ثانی نے اپنے بھائی منذر کو اس محکمے کا افسر اعلی مقرر کیا۔ خلیفہ حکم ثانی نے اس قدر کتابیں جمع کیں کہ اس سے قبل کسی بادشاہ نے نہ کی تھی حکم اور اسکے بھائی عبداﷲ نے اپنے باپ کے ہی زمانے سے اپنے کتب خانے قائم کر لیے تھے، چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد حکم ثانی نے ان سب کتب خانوں کو شاہی کتب خانے میں ضم کر دیا، یہ کتب خانہ یورپ کا پہلا عوامی کتب خانہ تھا۔ خلیفہ حکم ثانی کے کتب خانے کی عمارت اپنی شان و شوکت میں قصر شاہی سے کم نہ تھی، اس کا فرش نہایت قیمتی سنگ مر مر کا تھا، دیواریں اور چھتیں سنگ خام کی تھیں جن پر سنگ سبز اور سنگ سرخ کی نگاری کی گئی تھی، ہر کمرہ کسی خاص فن کی کتب کے لیے مخصوص تھا، الماریاں نہایت قیمتی اور صاف و شفاف لکڑیوں کی تھیں، ہر الماری پر آویزاں سونے کی پتری اس الماری میں موجود کتب کی تفصیل بردار تھی، اور دیواروں پر جگہ جگہ مشہور لوگوں کے قیمتی اقوال سنہری حروف میں لکھے تھے۔ دارالکتابت میں ایک کثیر تعداد کاتبوں، جلد سازوں اور جلد بندوں کی مقرر تھی بہترین کتابوں پر سونا بھی چڑھایا جاتا اور انہیں نقش و نگار سے مزین کیا جاتا۔ یہ مشہور ہو گیا تھا کہ الحکم کے لیے کتابوں سے قیمتی کچھ نہیں چنانچہ لوگ خلیفہ کو ھدیہ اور تحفہ میں کتابیں ہی بھیجتے تھے یہاں تک کہ قرطبہ کے مسیحیوں نے بھی حکم ثانی کو “اندلسی عیسائیوں کی عیدیں ” کے نام سے ایک کتاب پیش کی۔ بغداد، بصرہ اور دور دراز کے شہروں کے مصنفین اپنی کتابیں خلیفہ کے نام منسوب کر کے قرطبہ بھیج دیتے اور خلیفہ سے انعام میں بھاری رقوم وصول کرتے، جو بھی خلیفہ کا قرب اور رسوخ چاہتا کوئی قیمتی کتاب لے کر حاضر ہو جاتا۔
ہر بڑے شہر میں خلیفہ کی طرف سے ایسے لوگ بھی موجود ہوتے جو صرف نقل کتب کا کام کرتے اور کتب کی نقول تیار کر کے قرطبہ روانہ کر دیتے،۔ خلیفہ کے ان اقدامات سے اندلس میں اس قدر کتابیں جمع ہو گئیں کہ اس سے قبل نہ ہوئی تھیں۔ دیگر زبانوں کی کتب سے آشنائی کے لیے خلیفہ نے اپنے کتب خانے میں یونانی و عبرانی زبانوں سے تراجم کا ایک محکمہ بھی بنایاجس عمارت میں الحکم کی لائبریری تھی وہ ناکافی ہو گئی تو الماریوں میں کتابیں ایک دوسرے کے اوپر رکھ دی گئیں یہاں تک کہ مزید گنجائش نہ رہی، چنانچہ کتب خانہ دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا جس میں لاتعداد لوگ شریک کار ہوئے لیکن اس کے باوجود کتابوں کی کثیر تعداد کے باعث انتقال کے اس عمل میں چھ ماہ لگ گئے۔ الحکم کے زمانے میں اندلس کے اندرصوبائی اور ضلعی لائبریریاں بھی کثرت سے تھیں یہ لائبریریاں مشہور لوگوں کی تھیں اور ان میں خواتین کے کتب خانے بھی شامل تھے۔ تمام بڑے بڑے شہروں میں پبلک لائبریریاں تھیں جن کے اخراجات حکومت برداشت کرتی تھی صرف قرطبہ شہر میں ایسی لائبریریوں کی تعداد ستر(70) تھی۔ اس عہد میں علما و فضلا کا بازار گرم رہا اور خلیفہ نے بہت سی مجالس علمیہ قائم کیں چنانچہ مذاہب کی تعلیم اور کتاب بینی عام رواج بن گئی اور کوئی ان پڑھ باقی نہ رہا۔
حجاز، بغداد، قاہرہ، سمرقندوبخارا، ترمذ، دہلی غرض جہاں جہاں مسلمانوں نے حکومت کی وہاں کتاب کی تہذیب کی بنارکھی، انگریزجب ہندوستان میں وارد ہوئے تو ان کے سروے کے مطابق یہاں کی شرح خواندگی 87%تک پہنچ چکی تھی۔ اندلس میں جاہل، اجڈ، گنواراوربدتمیزیورپی افواج نے فرڈی ننڈکی قیادت میں اورمشرق میں ہلاکوخان کی جانگلی سپاہ نے کتب خانوں کو نذرآتش کیااور کتابیں اٹھا اٹھاکر دریابرد کردیں یہاں تک کہ دریاؤں کا رنگ سیاہ ہو گیااور علماء کرام کو تہہ تیغ کیاجس سے مسلمان اس قدر زوال کا شکار ہوئے کہ ان پر کاتب تقدیر نے غلامی مسلط کر دی اور مشرق و مغرب میں انسانوں کے شکاری اور سیکولرفکر کے حامل مرقع جہالت اقوام و افراد کتاب کی تہذیب کو ڈبوتے ہوئے اپنی تلوار کے زور پرلڑاؤاور حکومت کروکے اصول کے مطابق دنیا کے شرق و غرب پر حکمران بن گئے۔ مسلمانوں کے دورمیں سائنس نے بے پناہ ترقی کی تھی، بغدادمیں ایک، مسلمان سائنسدان اندھیری راتوں میں چاندنکالتاتھاجوایک طرف سے شہر بھرمیں طلوع ہوتااور دوسری طرف غروب کردیاجاتااور روشنی اس قدر ہوتی تھی کہ آنکھ کے قریب کرکے کوئی تحریر بھی پڑھی جاسکتی تھی لیکن سائنس کی اس ترقی نے انسانوں کو کتاب سے دور نہیں کیاتھا۔
گزشتہ چار سوسالوں سے سیکولر مغربی تہذیب انسانوں کی گردنوں پر مسلط ہے اور انسانوں کا جم غفیر رفتہ رفتہ کتاب سے دور ہٹتاچلارہاہے، خاص طورپر سائنس کی ایجادات نے عام انسان کو کتاب سے دور سے دور تر کر دیاہے۔ مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ پرامن دور میں خاص طور پر اوراس سے پہلے عام طورپر کتاب کابہت بڑاکردار مخلوق کو خالق سے ملانا تھا، لیکن سیکولرمغربی تہذیب نے جہاں انسانوں کو کتاب سے دور کردیاہے وہاں مخلوق کو خالق سے بھی دورکردیاہے اوراب کتاب بینی ادراک معرفت اور خودبینی و خدا شناسی کی بجائے محض چندسکوں کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے، گویااس سیکولر ازم نے کتاب بینی جیسے مقدس شغل کو بھی ’’کمرشلائز‘‘کر دیاہے اور خاص طور پر جہاں جہاں مغربی استعمار اپنی غلامی کے مکروہ کانٹے بوکر گیاہے وہاں سے تو کتاب کی صنعت بالکل ہی بیٹھ گئی ہے۔ طالب علم جب ایک درجہ سے آگے بڑھ جاتاہے توگزشتہ درجہ کی کتب اس کے لیے ’’ردی‘‘سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ انسانوں کو بام عروج تک پہنچانی والی ’’کتاب‘‘ آج جمعہ بازار کے فٹ پاتھوں پر اپنے گاہک کی تلاش میں مہینوں تک گردآلود ہوتی رہتی ہے۔ سیکولرازم کے اس کتاب دشمن کردار نے دنیامیں جہل عام کردیاہے اور چندفنون کی کتابیں ازبرکرلینے کوہی حصول علم سمجھاجانے لگاہے جس کے باعث اعلی اسلامی اخلاق تو کجاانسانی بستیوں سے تو بنیادی انسانی تمدن بھی عنقا نظرآتاہے۔ قدرت کایہ قانون ہے کہ خلاکو پر کرنے لیے بہت دور سے زوردارگھٹائیں امڈتی چلی آتی ہیں اور سیکولرازم کے اس خلاکو صرف اسلامی تہذیب کتاب بینی ہی پر کر سکتی ہے جس کے سورج کی شفق آج بآسانی دیکھی جاسکتی ہے اور جس کے طلوع کے ساتھ ہی سیکولرازم کے اندھیرے اپنے چمگادڑوں کے ساتھ ہی انسانیت سے دورکسی آسیبی غارمیں ہمیشہ کے لیے پناہ گزیں ہو جائیں گے، انشاء اﷲ تعالی۔